کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا جو روزانہ صبح سویرے اپنے کھیتوں میں جاتا اور دن بھر کام کر کے اپنی روزی کماتا تھا۔ احمد کی زندگی سادگی سے بھری ہوئی تھی، لیکن اس کا دل ہمیشہ شکر گزار رہتا تھا۔ اس کا ایک چھوٹا سا خاندان تھا، جس میں اس کی بیوی فاطمہ اور دو بچے، حسن اور زینب شامل تھے۔ ان کی زندگی اگرچہ شاہانہ نہ تھی، مگر خوشحالی میں گزر رہی تھی۔
قدرت کا انعام
احمد کی زندگی میں سب کچھ عام سا تھا، لیکن ایک دن قدرت نے اسے ایک نایاب تحفہ دیا۔ ایک دن، جب وہ اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا، تو اس نے دیکھا کہ اس کی مرغی نے ایک انڈا دیا ہے جو عام انڈوں سے بالکل مختلف تھا۔ جب اس نے غور سے دیکھا، تو اسے یقین نہیں آیا—یہ انڈا سنہری تھا!
احمد حیران ہوا اور جلدی سے اپنی بیوی کو بلایا۔ فاطمہ بھی انڈا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ دونوں سوچنے لگے کہ یہ عام انڈا نہیں ہو سکتا۔ احمد انڈا لے کر بازار گیا اور ایک سونے کے تاجر کے پاس پہنچا۔ تاجر نے انڈا دیکھ کر تصدیق کی کہ یہ خالص سونے کا بنا ہوا تھا۔
دولت کی بارش
جب احمد نے وہ انڈا بیچ دیا تو اسے بہت زیادہ رقم ملی۔ وہ خوشی خوشی گھر لوٹا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ اب وہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگلے دن، حیرانی کی بات یہ ہوئی کہ مرغی نے ایک اور سنہری انڈا دے دیا۔ یہ سلسلہ روزانہ جاری رہا، اور احمد ہر روز ایک سنہری انڈا بازار میں لے جا کر بیچ دیتا تھا۔
اب احمد کی زندگی مکمل طور پر بدل چکی تھی۔ وہ امیر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے نئے کپڑے خریدے، اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کرایا، اور ایک بڑا خوبصورت گھر بنوایا۔ اس کی بیوی بھی خوش تھی کہ ان کے دن بدل گئے ہیں۔
لالچ کا جنم
شروع میں، احمد اپنی قسمت پر خوش تھا اور صبر سے ہر روز مرغی کا دیا ہوا سنہری انڈا بازار میں بیچتا رہا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس کے دل میں لالچ پیدا ہونے لگا۔ وہ سوچنے لگا، “اگر یہ مرغی ہر روز ایک انڈا دے سکتی ہے، تو اس کے پیٹ میں کتنے انڈے ہوں گے؟ اگر میں سارے انڈے ایک ہی بار نکال لوں، تو فوراً امیر ہو جاؤں گا۔ مجھے روز روز بازار جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔”
یہ خیال احمد کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ وہ صبر کرنا بھول گیا اور دولت کی ہوس میں اندھا ہو گیا۔
غلط فیصلہ
ایک دن، احمد نے اپنی بیوی سے کہا، “فاطمہ، ہم کیوں نہ اس مرغی کو ذبح کر دیں اور اس کے پیٹ سے سارے سنہری انڈے نکال لیں؟ اس طرح ہمیں روزانہ ایک انڈے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، اور ہم فوراً بہت زیادہ امیر ہو جائیں گے۔”
فاطمہ حیران رہ گئی اور اسے سمجھانے لگی، “احمد، یہ تو بہت بڑی نعمت ہے جو ہمیں روز مل رہی ہے۔ اگر ہم لالچ میں آ کر مرغی کو مار دیں، تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صبر سے کام لینا چاہیے۔”
مگر احمد کی آنکھوں پر دولت کی پٹی بندھ چکی تھی۔ اس نے بیوی کی بات کو نظر انداز کر دیا اور اگلے ہی دن صبح مرغی کو پکڑ کر ذبح کر دیا۔
پچھتاوا
احمد نے جلدی جلدی مرغی کا پیٹ چاک کیا، لیکن جیسے ہی اس نے اندر دیکھا، اس کے ہوش اڑ گئے۔ مرغی کے پیٹ میں ایک بھی سنہری انڈا نہیں تھا! وہ اپنی غلطی پر بہت زیادہ افسوس کرنے لگا، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کی بیوی نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا، “میں نے تمہیں منع کیا تھا، مگر تم نے اپنی لالچ کی وجہ سے سب کچھ کھو دیا۔ اگر تم صبر کرتے تو ہر روز ایک انڈا حاصل کرتے رہتے، لیکن تمہاری بے صبری اور ہوس نے ہمیں تباہ کر دیا۔”
احمد کا سر جھک گیا، اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اب وہ سمجھ چکا تھا کہ لالچ کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے، مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
حالات کی بگڑتی صورت حال
مرغی کے بغیر، احمد اور اس کے خاندان کی دولت ختم ہونے لگی۔ جو سونا انہوں نے سنبھال کر رکھا تھا، وہ آہستہ آہستہ ضروریات پوری کرنے میں خرچ ہو گیا۔ پہلے جو لوگ احمد کی عزت کرتے تھے، اب وہ اس کا مذاق اڑانے لگے۔
احمد نے کئی بار کوشش کی کہ کسی طرح دوبارہ وہی خوشحالی حاصل کر لے، لیکن قسمت اس کے ساتھ نہیں تھی۔ اس کا کھیت بھی سوکھ گیا، اور قرض بڑھتا چلا گیا۔ کچھ ہی مہینوں میں وہ دوبارہ پہلے کی طرح غریب ہو گیا، بلکہ پہلے سے بھی بدتر حالت میں پہنچ گیا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں ایک بہت بڑی نصیحت دیتی ہے:
- لالچ کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ احمد اگر صبر کرتا اور روزانہ ایک سنہری انڈے پر اکتفا کرتا تو وہ ہمیشہ خوشحال رہتا، مگر اس کی بے صبری نے اسے سب کچھ کھو دینے پر مجبور کر دیا۔
- دولت سے زیادہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر احمد سمجھداری سے کام لیتا اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتا، تو اس کی زندگی بہتر رہتی۔
- ہر نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمیں قدرت کی دی ہوئی چیزوں پر شکر ادا کرنا چاہیے اور انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
- شارٹ کٹ ہمیشہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جو لوگ محنت اور صبر کے بجائے فوری امیر ہونے کے خواب دیکھتے ہیں، وہ اکثر نقصان اٹھاتے ہیں۔
نتیجہ
احمد کی کہانی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ ہمیں لالچ اور بے صبری سے بچنا چاہیے۔ اگر ہم محنت اور ایمانداری سے کام کریں تو کامیابی ہمیشہ ہمارے قدم چومے گی۔ لیکن اگر ہم دولت کے پیچھے اندھا دھند دوڑیں اور غلط فیصلے کریں، تو نقصان ہمارا مقدر بن جائے گا۔
یہ کہانی بچوں اور بڑوں سب کے لیے سبق آموز ہے اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قناعت اور صبر سے زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ 😊
